احوال انتہاۓ سلوک

ایک اجازت یافتہ کا خط

 

الحمدللہ سردست طریق سلوک میں کچھ شبہات نہیں معلوم ہوتے۔

جو کچھ انتہاء اس طریق کی بطفیل آنحضرت اپنی ناقص فہم میں آئی ہے بغرض اصلاح بے تکلف عرض کرتا ہوں، امید ہے کہ تکلیف فرما کر اصلاح فرمادی جاوے ۔

 وہ یہ کہ،

– یقین کالمشاہدہ کا حاصل ہونا

– اپنا اور اغیار کا وجود چشم باطن میں فناء کالعدم ہوجانا،

– بالکل یکسو ہو کر قلب کا ذکر و مذکور کی طرف متوجہ و مائل ہوجانا اور

– جمیع تعلقات و جملہ حالات و خیالات کا باطن سے غائب و فناء ہوجانا،

– مدام باہوش و صاحب فکر رہنا،

– اپنے اور اغیار کی ذات بلکہ ہر دو جہاں اور جملہ ماسوا سے قلب کا بالکل آزاد و فارغ ہوجانا،

– رضا و تسلیم کا عادی و خوگر بن جانا: جملہ حالات و جمیع معاملات میں مشیت و مرضی مولا پر بدل و جاں راضی و خوش رہنا،

بس اپنے فہم ناقص کا خلاصہ عرض کر چکا۔

 

حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کا جواب،

ماشآ اللہ لیھئنک العلم،

 خوب سمجھ گئے۔

 اللہم ادم و اقم۔

 

تربیت السالک، جلد1، ص772