تیری محفل میں کیا انوار ہیں اے مہ جبیں ساقی
اتر آیا زمیں پر آج کیا عرش بریں ساقی
تیرے رندوں پہ سارے کھل گۓ اسرار دیں ساقی
ہوا علم الیقیں عین الیقیں حق الیقیں ساقی
شراب تلخ دے مجھ کو بجاۓ انگبیں ساقی
کہ نکلے رقص کرتی روح وقت واپسیں ساقی
عجب ہے تیرے میخانے کا اے پیر مغاں عالم
کہیں ساغر کہیں مے کش کہیں مینا کہیں ساقی
ازل کے مست ہیں رکھتے ہیں ہم فطرت ہی مستانہ
ہمیں خم ہیں، ہمیں ساغر، ہمیں میکش، ہمیں ساقی
ذبردستی لگادی آج بوتل منہ سے ساقی نے
میں کہتا ہی رہا ہاں ہاں نہیں ساقی! نہیں ساقی!
رہے ہشیار پی کر خم کے خم بھی تیرے متوالے
تیرے انداز مے بخشی پہ ہے صد آفریں ساقی
مجذوب رح