ساقی

redwine

تیری محفل میں کیا انوار ہیں اے مہ جبیں ساقی

اتر آیا زمیں پر آج کیا عرش بریں ساقی

تیرے رندوں پہ سارے کھل گۓ اسرار دیں ساقی

ہوا علم الیقیں عین الیقیں حق الیقیں ساقی

شراب تلخ دے مجھ کو بجاۓ انگبیں ساقی

کہ نکلے رقص کرتی روح وقت واپسیں ساقی

عجب ہے تیرے میخانے کا اے پیر مغاں عالم

کہیں ساغر کہیں مے کش کہیں مینا کہیں ساقی

ازل کے مست ہیں رکھتے ہیں ہم فطرت ہی مستانہ

ہمیں خم ہیں، ہمیں ساغر، ہمیں میکش، ہمیں ساقی

ذبردستی لگادی آج بوتل منہ سے ساقی نے

میں کہتا ہی رہا ہاں ہاں نہیں ساقی! نہیں ساقی!

رہے ہشیار پی کر خم کے خم بھی تیرے متوالے

تیرے انداز مے بخشی پہ ہے صد آفریں ساقی

مجذوب رح