حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ نے فرمای
نسبت کے لغوی معنی تعلق اور لگاؤ کے ہیں، اور
اصطلاحی معنی میں بندہ کا حق تعالی سے خاص قسم کا تعلق یعنی قبول و رضا کا، جیسا عاشق مطیع اور وفادار معشوق میں ہوتا ہے۔
جب ذکر اللہ کی مواظبت اور ریاضت و مجاہدات کی کثرت سے ظلمت نفسانیہ و کدورات طبعیہ کا ازالہ ہو جاتا ہے تو قلب و روح کو حق تعالی کے ساتھ ایک خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے، اس کو نسبت سے تعبیر کرتے ہیں۔
نسبت تعلق طرفین کا نام ہے۔
یک طرفہ تعلق کو نسبت نہیں کہا کرتے۔
پس بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ ان کو خدا تعالی کے ساتھ محض یاد کا تعلق ہوتا ہے اور یہ تعلق یک طرفہ ہے۔
تعلق دو طرفہ عمل و اطاعت سے ہوتا ہے۔ جب انسان عمل و اطاعت کا اہتمام کرتا ہے اسوقت حق تعالی کو بھی اس سے تعلق ہو جاتا ہے۔
اور اس کا القاء ایک دم نہیں ہوتا بلکہ رفتہ رفتہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
البتہ اس کی ظاہری علامت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تمام افعال، اقوال، و حرکات میں زیادہ تشبہ ہو۔
ہر بات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی کوشش کی جاۓ اور یہ اتباع عادت ہو جاۓ کہ بے تکلف سنّت کے موافق افعال صادر ہونے لگیں۔
شریعت و طریقت ص 369 بحوالہ مسائل السلوک ص 503