دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ھمہ ھستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم
تُو دل ھے یا دلبر، تُو جان ھے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ھر ہستی و ھر چیز تو تُو ھی ھے، میں یہ اور وہ کچھ نھیں جانتا۔
بجز تو در ھمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ھمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم
سارے جھان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نھیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نھیں پھچانتا۔
بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم
تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نھیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نھیں دیکھتا۔
مرا با توست پیمانے، تو با من کردہ ای عھدے
شکستی عھد، یا ھستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عھد کیے، تُو نے اپنے عھد توڑ دیے یا ابھی تک انھی پر ھے، میں کچھ نھیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نھیں ھے، عشق میں عھد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔
بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟
تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ھوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نھیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ھی دردِ دل کا پھلا اور آخری علاج ھے۔
نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم
مجھ (ھجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ھے اور نہ جھان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کھاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ھونا ھی اس شعر کا وصف ھے کہ یھیں سے سارے راستے کھلیں گے۔
عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم
یہ بھی عجیب ھے کہ تیرا جمال ھر سُو اور ھر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نھیں جانتا کہ کیا دیکھ رھا ھوں۔
ھمی دانم کہ روز و شب جھاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم
یہ جانتا ھوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ھی جمال سے روشن ھیں لیکن یہ نھیں جانتا کہ تو سورج ھے یا تابناک چاند۔
بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رھا خواھم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم
شیخ فخرالدین )عراقی (رحمة اللہ علیہ) کے پاؤں ھجر کے قید خانے میں بندھے ھوئے ھیں، اور اس قید سے رھا ہونا بھی چاھتا ہوں یا نھیں، نھیں جانتا۔
Source:
صریرِ خامۂ وارث